عاصم بخاری کی کربلائی شاعری

عاصم بخاری کی کربلائی شاعری

تحقیق
(مقبول ذکی مقبول بھکر)

سر جھکا کے رو پڑا میرا قلم
لفظ جب سے یہ لکھا ہے کربلا

آخری سجدہ مرے شبیرؑ کا
بندگی کی انتہا ہے کربلا

جس میں شامل تھے بچے بھی عورتیں
وہ لٹا اک ، قافلہ ہے کربلا

معرفت کی آنکھ سے دیکھو اگر
حق کا سچ کا ، راستہ ہے کربلا

عاصم بخاری کی کربلائی شاعری

شاعری کے آغاز ارتقا سے ہی اگر تحقیقی وتنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے تو بالخصوص اردو شاعری میں ہمیں دکن سے ہی حمد و نعت کے بعد سلام منقبت زیادہ تر شعرا کے ہاں ملتی ہے ۔اس سے اگر آپ مزید پیچھے چلے جائیں تو فارسی شعرا ء کے ہاں کربلا کے موضوع پر اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں اس سے اگر آپ اور پیچھے جاکے عربی ادب کی ورق گردانی کریں تو اس میں بھی ہمیں خانوادہ ء رسول کے موضوع پر عربی شعراء بھی قلم کشا نظر آتے ہیں ۔ بر ِ صغیر پاک و ہند ، سے مرثیے اور کربلائی شاعری قیام ِ پاکستان کے ساتھ کراچی اور لاہور میں داخل ہوکر ملک کے طول و عرض میں دکھائی دیتی ہے ۔ ادوار آتے رہے عروج و زوال جاری رہا مگر شاعری کی ہر صنف میں کربلائی شاعری اپنے انقلابات اور جدت کے ساتھ کروٹیں بدلتی رہی جس میں آئے روز اضافہ دکھائی دیتا ہے ۔ ہر شاعر اسے جذبہء ایمانی سے سر شار ہو کر اپنے لیے ضروری سمجھتا ہے ۔ اگر عاصم بخاری کی بات کی جاۓ تو عاصم بخاری خاندان ِ سادات کے چشم وچراغ ہیں بقول شاکر خان

گھر کے لٹنے کے یہ حالات بتا سکتے ہیں
غم کسے کہتے ہیں سادات بتا سکتے ہیں

پروفیسر عاصم بخاری اس بات کا درک رکھتے ہیں کہ حمد نعت سلام نوحہ مرثیہ منقبت لکھتے وقت کون سی زبان استعمال کرنی ہے ۔اس آداب کیا ہیں کن باتوں کو ملحوظ ِ خاطر رکھنا ہے ۔ ان کے چناؤ میں احترام کا پاس رہے ۔ عاصم بخاری کی زبان سادہ ہونے کے باوصف پر اثر شاعری ہے ۔ کربلائی شاعری میں شاعری کاصدق ِ دل سے لکھنا اس میں خشوع و خضوع کا ہونا بنیادی شرط ہے۔۔
عاصم بخاری نے سلام نگاری میں عظمت ِ حسین علیہ السلام کھل کر بیان کی ہے
اشعار دیکھیئے
ظلمت سراۓ دشت میں تنویر ہیں حسینؑ
انسانیت کے نام کی ، توقیر ہیں حسینؑ
۔۔۔۔۔
گرچہ خدا کی راہ میں ، سب کچھ لٹا گئے
پھر بھی رضا و شکر کی تصویر ہیں حسین ؑ
۔۔۔۔۔۔۔
عاصم ہوا عیاں کہ ، بھری کائنات میں
دینِ خدائے پاک کی تشہیر ہیں حسینؑ
کربلائی شاعری کے لحاظ سے دیکھا جاۓ تو عاصم بخاری کے سلام میں تخیل کی بلندی ہے ۔ مضمون آفرینی ہے ، طرز ِ ادا میں جدت کے ساتھ ساتھ لطف ِ زبان اور حسن ِ بیان بھی ہے ۔
کربلا کے عنوان سےچند اشعار دیکھیۓ ۔
دین ِ خداۓ پاک کی تجسیم کربلا
صدق و صفا و مہر ک تعلیم کربلا
۔۔۔۔۔۔
اس سر زمیں پہ سبط ِ پیمبر ہوئے مقیم
اس واسطے ہے لائق ِ تعظیم کربلا
۔۔۔۔۔۔۔
بے شک ادائے فرض کی عاصم ہے یہ مثال
بے شک بقاۓ دین کی ، تنظیم کربلا

عاصم بخاری کے ہاں بھی حمد و نعت کے بعد سلام و منقبت نوحہ اور مرثیہ شاعری کی ہر صنف میں ملتا ہے ۔
عاصم بخاری کی کربلائی شاعری کا اگر فکری و فنی پہلو کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو ان کے دل و دماغ میں کربلا بستی ہے ۔ ان کی شاعری میں فکر بھی پائی جاتی ہے فلسفہ ء قیام کربلا بھی ملتا ہے اور روح ِ کربلا بھی شعر دیکھیے

ایک دنیا ، جا رہی ہے ، کربلا
پوچھتا ہے دل کہ ہم کب جائیں گے

ایک اور فلسفیانہ انداز دیکھیئے

موت کا مفہوم بھی میری سمجھ میں آ گیا
کربلا سے میں نے پایا ، ہے سراغ ِ زندگی

امام حسین علیہ السلام کے سر ِ اقدس کی نوک نیزہ پر سورہ ء کہف کی تلاوت کے منظر کو کس دل دوز انداز میں بیان کرتے ہیں ۔ ایک منظر کشی کرتا فکری شعر دیکھیۓ
تَن سے تو جدا کرنے پہ سب ، اس کے تلے ہو
نیزوں پہ بھی بولے گا یہ سر ذہن میں رکھنا

محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی فرش تا عرش غم اور سوگ کی فضا ہر سمت افسردہ ہو جاتی ہے اور حسینؑ حسین ؑ کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں ۔
قطعہ دیکھیۓ۔

مغموم کائنات کی ، سب ہو گئی فضا
چاند آتے ہی نظر ہوا ، کہرام سا بپا
ہر قلب ِ درد مند کہ ، پہنچا ہے کربلا
آغاز شہر ِ دل میں ، محرم کا ہو گیا

محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی فرش تا عرش غم اور سوگ کی فضا ہر سمت افسردہ ہو جاتی ہے اور حسین ، حسین کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں ۔
قطعہ دیکھیۓ۔

مغموم کائنات کی ، سب ہو گئی فضا
چاند آتے ہی نظر ہوا ، کہرام سا بپا
ہر قلب ِ درد مند کہ ، پہنچا ہے کربلا
آغاز شہر ِ دل میں ، محرم کا ہو گیا
عاصم بخاری کی کربلائی
شاعری میں ایک فکری اور تبلیغی انداز کا شعر ملاحظہ ہو۔

نماز ہر حال میں ہے واجب نہ بھول جانا
عمل یہ کر کے دکھا رہا ہے ، حسین ؑ کربل
صدائے ھل من سنائی دیتی نہیں ہے تم کو
کہ آؤ ہم کو ، بلا رہا ہے حسین ؑ کربل

فلسفہ ء کربلا اور قیام ِ کربلا جس میں فکر ِ حسین اور کربلا کی مقصدیت اور ھَل مِن نَاصر۔۔۔ کے نکتہ کی وضاحت کرتی پروفیسر عاصم بخاری کی ایک نظم بیعت کے سوال کے حوالے سے دیکھیۓ
محرم
یہ وہ مہینہ ہے جس مہینے
یزید فاسق ، یزید فاجر
کو میرے مولا حسین ابنِ
علی(ع) نے عاصم یہی کہا تھا
کہ میرے جیسا کبھی بھی سن لے
کہ تیرے جیسے کی کرکے بیعت
نہ یہ کہے گا کہ ٹھیک تم ہو
نہیں نہیں یہ کبھی نہ ہوگا
مدینہ شہرے نبی سے بھی میں
چلوں گا مکہ ، وہاں بھی رہنے
نہ گر دیا تو ، عراق کربل
بساؤں گا میں کٹاؤں گا میں
کہ حق کی خاطر یہ سر بھی اپنا
زمانہ دے گا ، مثال میری
یہ یاد رکھنا، نہ بھول جانا
نہ بھول جانا یہ بات میری

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

PEOPLE OF DETERMINATION

پیر جولائی 24 , 2023
جب پاکستان ایجوکیشن اکیڈمی دبئی کی روح رواں محترمہ صائمہ نقوی نے 3محرم 22جولائی کے “پیرا سپورٹس سیمنار” کا دعوت نامہ بھیجا تو اس کی
PEOPLE OF DETERMINATION

مزید دلچسپ تحریریں