فراڈ کی بدلتی شکلیں
کچھ دن پہلے مجھے کال آٸ کہ آپ کا بیٹا ہمارے قبضے میں ہے ہم پولیس والے ہیں اور اس کو تھانے لے کر جا رہے ہیں آپ کے بچے کے دوست نے اسلام آباد میں ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کا ریپ کیا ہے اور اس کی موبائل سم آپ کے بیٹے کے کمرے سے ملی ہے۔ اگر آپ بچے کو بچانا چاہتے ہیں اور کیس ایف آئی آر سے پہلے ختم کرانا چاہتے ہیں تو دو لاکھ ہمیں ایزی پیسہ کر دیں اور اگر آپ نے دیر کی تو نتاٸج آپ کو بھگتنا پڑیں گے اور اگر آپ کا بچہ تھانے پہنچ گیا تو دس سال تک ضمانت نہیں ہو سکے گی اگر آپ کو یقین نہیں تو اپنے بیٹے سے بات کر لیں یہ کہتے ہی مجھے میرے بیٹے کی آواز میں بات کرائی گئی جس نے صرف یہ کہا ” ابو جی ابو جی ” اور رو پڑا پھر فون دوسرے شخص نے لے لیا اور رقم کا مطالبہ کیا۔ میں نے اسے کہا کہ میں ریٹائرڈ فوجی ہوں میرے پاس اس وقت صرف سات سو روپے ہیں اس شخص نے مجھے پھر دھمکایا تو شفقتِ پدری کی وجہ سے میرا مضبوط دماغ ایک دفعہ ریت کا ڈھیر بن گیا اور میں پریشان ہو گیا لیکن دوسرے ہی لمحے میرا اندر کا فوجی بیدار ہوا تو میں نے اس شخص سے کہا کہ آپ مجھے تھوڑا وقت دیں لیکن اس نے کہا کہ چلیں اب تھانے میں ہی بات ہو گی میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ میرے بچے کو تھانے لے جاٸیں اس کے ساتھ ہی فراڈی نے فون بند کر دیا اور میں اٹک کچہری میں اپنے بھاٸ جو پولیس میں نوکری کر رہا ہے اور ساتھ ہی اپنے بھاٸ سید محسن رضا نقوی جو وکیل ہے سے رابطہ کیا کچہری میں جا کر اپنے بھاٸ پولیس مین کو کال کی اور ساتھ ہی اپنے مغوی بیٹے سید عاقب رضا شاہ کو کال کی تو اس نے اٹنڈ کر لی میں نے پوچھا کہ آپ کہاں ہیں تو اس نے کہا ابو جی میں اپنے دفتر میں ہوں میں نے کہا کہ تم سچ بول رہے ہو تو اس نےکہا کہ میں سچ بول رہا ہوں میں نے فراڈیوں کی کال کے متعلق بتایا تو اس نے کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے آپ دھوکا نہ کھاٸیں اور کسی ایسی کال پر یقین نہ کریں کیونکہ میں محفوظ ہوں۔
میں نے کچہری والے بھائی سے ملاقات کی اس نے تھانہ سٹی میں بھیجا تو وہاں ایک دوست نے کہا کہ یہ کیس ساٸبر کنٹرول والوں کا ہے آپ وہاں جائیں تو میں واپس آ گیا اور ساتھ ہی گھر والوں کو آگاہ کیا کہ اس قسم کی فون کال آٸ ہے اگر آپ کے فون پر بھی ایسی کال آۓ تو یقین نہیں کرنا گھر والوں نے بھی باری باری سید عاقب رضا شاہ سے بات کی تو انہیں یقین آیا۔
اس دوران جب تک میرا بیٹا گھر نہ آیا میں غصے اور پریشانی کے عالم میں رہا اور فیس بک پر سخت الفاظ میں شعر بھی لکھتا رہا حالانکہ میں زیادہ تر نعت پاک ہی لکھتا ہوں پریشانی کے عالم میں کٸ لوگوں پر شک بھی ہوا لیکن خاموش رہا میں نے غصے میں جو کلام لکھا وہ آپ قارئین کی نذر کرتا ہوں
غزل
بُغُّض تیرا ہُنڑ تے سَمّے
قبُّر تیرا گاٹا بھنّے
حَسُّد تیرا چڑھ گیا کَھمّے
کتا تیری قَبُّر سَنھے
ہر پاسے نیں کنڈے کِھلرے
جانڑاں اساں کِہڑے بنّے
اَسّاں اُس توں بچ کے لنگھڑاں
ساڈے نا او آپے کَھنّے
تیری نفرت رج کے ودھی
آکُڑ تیری کہڑے کَمّے
اِس دا بَھن ہُنڑ کس نے کرنا
نِت کھڈار ہُنڑ کِہڑا جَمّے
قائم بچ کے ٹُر، سچ بی لکھ
وَڈھدے رہندے کُھڈّے رَمّے
میں نے غصے اور آنے والی جھوٹی کال پر اپنی نفرت کا اظہار بہت برے انداز میں کیا ہے جو کہ مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا اور اب یہ کالم لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ عید قریب ہے اگر آپ کو بھی ایسی کال آۓ تو اس پر پریشان نہ ہوں پہلے تحقیق کریں اور بعد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کریں انہیں آپ اپنا مددگار پاٸیں گے دوستوں پر شک نہ کریں وہ ایسی بھونڈی حرکت نہیں کر سکتے آپ بھی اپنا ظرف بلند رکھیں اور محبتوں کے نغمے لکھیں اور نفرت کے بیج نہ بوئیں یہی زندگی ہے اور زندگی سے پیار کریں
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔