نمائندگان کی تنخواہوں میں 526 فیصد اضافہ : عوام کا کیا بنے گا؟
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
پنجاب اسمبلی میں 2024 میں عوامی نمائندگان کی تنخواہوں پر نظرثانی بل کی منظوری کے بعد ایم پی ایز کی تنخواہوں میں 100 فیصد نہیں بلکہ 526 فیصد اضافہ کیا گیا جو کہ مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی عوام ایک اور مہنگائی بم پر گرنے والا ہے۔ اس بل کے مطابق ایک ایم پی اے کی تنخواہ 76 ہزار روپے سے بڑھا کر 4 لاکھ روپے کر دی گئی جو کہ باقی ماندہ پاکستانی عوام کے ساتھ ظلم عظیم ہے جبکہ وزراء، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، پارلیمانی سیکرٹریز اور وزیر اعلیٰ کے معاونین خصوصی کی تنخواہوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ یہ اضافہ ایسے وقت میں کیا گیا جب عوام گیس اور بجلی کی بڑھتی قیمتوں سے شدید متاثر ہیں اور حکومت کفایت شعاری کی پالیسی کے تحت اخراجات میں کمی کے دعوے کر رہی ہے۔ تنخواہوں میں اضافے کی تفصیلات یہ ہیں:
ایم پی اے: 76 ہزار سے 4 لاکھ روپے
وزیر: 1 لاکھ سے 9 لاکھ 60 ہزار روپے
اسپیکر: 1 لاکھ 25 ہزار سے 9 لاکھ 50 ہزار روپے
ڈپٹی اسپیکر: 1 لاکھ 20 ہزار سے 7 لاکھ 75 ہزار روپے
پارلیمانی سیکرٹری: 83 ہزار سے 4 لاکھ 51 ہزار روپے
وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی: 1 لاکھ سے 6 لاکھ 65 ہزار روپے
یہ اضافہ عوامی نمائندوں کے لیے خوشی کا باعث بنا ہے اور اسپیکر نے اسے ایک مثبت اقدام قرار دیا ہے۔ تاہم عوامی حلقوں میں اس فیصلے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ جب غریب طبقہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ایسے وقت میں سیاستدانوں کی تنخواہوں میں یکمشت پانچ گنا اضافہ غیر منصفانہ ہے۔
عوامی نمائندگان کی تنخواہوں میں اضافے کو ایسے وقت میں منظور کیا گیا جب حکومت کفایت شعاری کے اقدامات کے تحت اخراجات کم کرنے اور مراعات پر کٹوتی کی بات کر رہی ہے۔ یہ اقدام عوام میں حکومت کے دوہرے معیار کا تاثر پیدا کرتا ہے۔
مہنگائی کے سبب عام آدمی کی زندگی مشکل ہو چکی ہے۔ ایسے میں عوامی نمائندگان کو اپنی مراعات بڑھانے کے بجائے عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے تھی۔
سیاست کو عبادت سمجھا جاتا ہے اور عوامی نمائندگان کو اپنے ذاتی مفادات سے زیادہ عوامی خدمت کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس بل کی منظوری سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ حکومت اور سیاستدان اپنی مراعات میں اضافے کو عوامی مسائل سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔
یہ اضافہ صرف نمائندگان کی مالی حالت بہتر کرے گا لیکن اس سے حکومت پر عوامی اعتماد کم ہو سکتا ہے۔ عوام کو یہ احساس ہوگا کہ ان کے مسائل کو پس پشت ڈال کر صرف بیوروکریسی اور سیاستدانوں کو مراعات دی جا رہی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کے اس فیصلے نے عوامی نمائندگان کی ترجیحات پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ عوامی خدمت کے جذبے کے تحت کام کرنے والے نمائندگان کو اپنی مراعات میں اضافے کے بجائے عوام کے مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تھی۔ اس بل کی منظوری سے عوامی مشکلات کے مقابلے میں مقتدر طبقے کے مفادات کو ترجیح دینے کا تاثر پیدا ہوا ہے، جو کہ ایک جمہوری حکومت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ پنجاب حکومت اس مسئلے پر خود کو جھنجوڑنے کی زحمت گوارا کرے گی۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔