زرعی آمدنی پر 45% ٹیکس
ایک گاؤں والوں کے پاس دودھ دینے والی ایک ہی گائے تھی جس کے دودھ پر پورے گاؤں کا گزارہ چل رہا تھا. ایک دن گائے نے ٹنکی میں اپنا سر پھنسا لیا۔ اب پورے گاؤں میں پانی والی ٹنکی بھی ایک ہی تھی اور دودھ دینے والی گائے بھی ایک تھی۔ گاؤں والے پریشان تھے اور سوچ رہے تھے کہ وہ گائے کو بچاتے ہیں تو ٹنکی توڑنی پڑے گی اور ٹنکی کو بچاتے ہیں تو گائے کا سر کاٹنا پڑے گا۔ ساتھ والے گاؤں میں ایک شخص کی دانائی کے بڑے چرچے تھے، فیصلہ ہوا کہ اس مسئلے کے حل کے لیئے اسے بلایا جائے۔ اس دانا کو لانے کیلئے سفید رنگ کا ایک خصوصی گھوڑا بھیجا گیا۔ وہ گھوڑے سے اترا اور اس نے گاؤں والوں کو مشورہ دیا کہ گائے کا سر کاٹ دیا جائے۔ اس دانا کے مشورے پر گائے کا سر کاٹ دیا گیا لیکن گائے کا سر ٹنکی کے اندر گر گیا۔ اب ایک اور مشکل آن پڑی کہ ٹنکی سے گائے کا سر کیسے نکالا جائے؟ دانا شخص سے ایک بار پھر مشورہ طلب کیا گیا۔ اب اس نے مشورہ دیا کہ ٹنکی کو توڑ دیا جائے۔ اہل گاو’ں نے ایسا ہی کیا۔ اب گائے بھی ذبح ہو چکی تھی اور ٹنکی بھی ٹوٹ چکی تھی۔ وہ دانا شخص تھوڑے سے فاصلے پر کھڑا روئے جا رہا تھا۔ لوگوں نے اسے حوصلہ دیا اور کہا کہ کوئی بات نہیں، خیر ہے آپ پشیمان نہ ہوں۔ تب گاؤں کے ایک بندے نے ہمت کر کے اس سے پوچھ لیا کہ ویسے آپ رو کیوں رہے ہیں؟ اس دانا آدمی نے جواب دیا، "میں رو اس لئے رہا ہوں کہ اگر میں نہ ہوتا تو تم لوگوں کا کیا بنتا؟”
گزشتہ 75 سالوں سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ، "زراعت پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔” کل ہی ایک خبر آئی تھی کہ آئی ایم ایف (IMF) نے نئے بیل آوٹ پیکیج کے لیئے زرعی آمدنی پر 45فیصد ٹیکس کی کڑی شرط عائد کر دی ہے۔ اب زراعت کے علاوہ ہماری معیشت میں آئی ایم ایف (IMF) کو بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور ہمارے ساتھ بھی وہی معاملہ ہو رہا ہے جو اس گاو’ں والوں کی گائے کا سر ٹنکی میں پھنسنے کی وجہ سے درپیش تھا۔ حکومت کے پاس ملکی اخراجات چلانے کے لیئے آئی ایم ایف کی شرط کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ جب سے "بی جمہوریت” آئی ہے کسی بھی حکومت نے اشرافیہ یعنی مراعات یافتہ طبقہ پر کبھی ہاتھ نہیں ڈالا ہے۔ اس وقت بھی بھاری قرضوں کا سود دینے کے لیئے ستانویں سو ارب روپے کی رقم پاکستانیوں کی جیب سے نکالی جائے گی جس میں 45% زرعی ٹیکس لگانے کا پلان بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ پاکستان کی تباہی کا راز 90ہزار سبز پلیٹ کی گاڑیاں، 220ارب کا مفت پٹرول اور 550ارب روپے کی مفت بجلی ہے۔
اہل یورپ کو دیکھیں کہ پورے انگلینڈ میں صرف 86 سرکاری گاڑیاں ہیں جبکہ صرف اسلام آباد میں 90 ہزار سرکاری گاڑیاں ہیں۔ صدر سے لے کر ایم پی اے کے منشیوں تک ان کی بجلی، گیس، ہزاروں لٹر فیول، سینکڑوں سیکورٹی گارڈ اور پروٹوکول کے نام پر درجنوں گاڑیاں، کچن کے نام پر کروڑوں روپے اور باہر کے ملکوں میں درجنوں افراد ساتھ لے کر سیر سپاٹے اور سرکاری خرچ پر حج کرنے والوں کے اخراجات کا بوجھ بھی عوام پر ٹیکس لگا کر پورا کیا جاتا ہے جس کا نصف النہار بوجھ اب زراعت پر ڈالنے کا منصوبہ تیار ہے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ وڈیروں اور جاگیرداروں میں اس نئے زرعی ٹیکس کے حوالے سے ہلچل مچ گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے نئے بیل آؤٹ پیکیج کے لیئے ایک ڈھانچہ جاتی بنچ مارک قائم کیا ہے جس کے تحت صوبائی حکومتوں کو اپنے قوانین میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زرعی آمدنی پر 45% تک معیاری انفرادی انکم ٹیکس کی شرح نافذ کی جا سکے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے ٹیکس نظام کو برقرار رکھنے کے لیئے زراعت اور پراپرٹی کے شعبوں پر ٹیکس لگانے کی ضرورت پر زور دیا۔ موصوف وزیر خزانہ کو معلوم ہونا چایئے کہ پاکستان میں پہلے ہی محکمہ مال، انتظامیہ، اس کے افسران پٹواری، تحصیل دار، اے سی، ڈی سی اور ایکسائز اینڈ ٹیکنیشن کے محکمہ جات اور اس کے افسران موجود ہیں۔ ان محکمہ جات کا کام زراعت و آب پاشی کے زمینداروں سے "معاملہ” (زرعی ٹیکس) وصول کرنا ہے اور شہروں میں موجود پراپرٹیوں اور بنگلہ جات پر ٹیکس لگانا ہے۔ یا تو پہلے یہ کام نہیں ہو رہا تھا تو پھر یہ نیا 45% زرعی ٹیکس ٹھیک ہے اور اگر ہو رہا تھا تو پھر زمینداروں سے یہ تقریبا آدھی آمدنی وصول کرنے کی تجویز کا کیا مطلب ہے؟ پاکستان میں زمینیں بڑے زمیندار خود کاشت نہیں کرتے بلکہ یہ زمینیں مزارع کاشت کرتے ہیں۔ اس ٹیکس کو مزارعوں پر کیسے تقسیم کیا جائے گا یا بڑے جاگیرداروں سے کیسے وصول کیا جائے گا ابھی اس کا طریقہ کار واضح نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے قبل بھٹو دور میں بڑے جاگیرداروں سے جاگیریں لے کر مزارعوں میں تقسیم کرنے کی باتیں بھی ہوئی تھیں مگر وہ بیل کبھی منڈھے نہیں چڑھ سکی تھی بلکہ سارے جاگیر دار بھٹو صاحب کے ارد گرد جمع ہو گئے تھے، انہی جاگیرداروں مثلا غلام مصطفی کھر کو پنجاب اور غلام مصطفی جتوئ کو سندھ میں بڑے عہدوں سے نوازا گیا تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ اس وقت زراعت معیشت کا 24فیصد حصہ ہے مگر اس کے باوجود زرعی شعبہ پاکستان کی کل ٹیکس وصولیوں میں صرف زیرو اشاریہ ایک فیصد کا حصہ ڈالتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جاگیر طبقہ اس کم ٹیکس سے مستفید ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کا مقصد صوبوں پر زور دے کر اس تفاوت کو کم کرنا ہے۔ آئی ایم ایف ہماری اتنی ہمدرد کہاں سے آ گئی جس کے کشکول کو توڑنے کے نعرے یہی نون لیگی حکومت لگاتی آئی ہے۔ آئی ایم ایف نے چاروں صوبوں کے نمائندوں سے ورچوئل مذاکرات کیئے۔ ہر صوبائی حکومت نے آئی ایم ایف کا مطالبہ مان لیا۔ چاروں صوبائی حکومتیں جولائی کے وسط تک پلان جمع کرائیں گی۔ ذرائع کے مطابق زرعی آمدن پر انکم ٹیکس کی شرح سالانہ 6لاکھ سے زائد آمدن پر عائد ہو گی۔ ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے مثبت مذاکرات کیئے اور آئی ایم ایف (IMF) نے خیبر پختونخوا کے 100 ارب روپے کے سرپلس بجٹ کو سراہا۔
آپکو یاد ہو گا کہ اسی صوبے خیبر پختونخوا کے گورنر کے گھر میں بجلی کا بل لاکھوں روپے میں آیا تھا تو اس کے گھر کو سرکاری رہائش گاہ قرار دے دیا گیا تھا۔ مزہ تو تب ہے کہ ان جاگیرداروں سے جاگیریں واپس لی جائیں اور انہیں بیچ کر ملک کا قرضہ اتارا جائے۔ ورنہ زراعت کی آمدنی پر 45% ٹیکس لگایا گیا تو اس کا سارا بوجھ غریب مزارعوں پر پڑے گا اور ہماری ملکی معیشت کی گردن اسی طرح آئی ایم ایف (IMF) کی ٹنکی میں پھنسی رہے گی، اس کے قرضہ دلوانے والے "دانا مشیر” دور کھڑے مگرمچھ کے آنسو بہاتے رہیں گے کہ وہ نہ ہوتے تو پاکستان کا کیا بنتا؟ شائد اب بھی وہی بنتا جو اتنے سالوں سے سیاسی حکومتیں معیشت کو آئی ایم ایف کی گائے کا دودھ پلا کر بناتی چلی آ رہی ہیں۔
Title Image by aleksandarlittlewolf on Freepik
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔