تیرہ تیزیاں اور آخری چہار شنبہ

تیرہ تیزیاں اور آخری چہار شنبہ

تقویم اسلامی کا دوسرا مہینہ  صفر المظفر جسے پاک و ہند میں تیرہ تیزیاں کہا جاتا ہے۔ تیرہ تیزیاں کی یہ اصطلاح  اگرچہ اس کے پہلے 13 دنوں  سے متعلق ہے لیکن  بالعموم یہ مہینہ تیرہ تیزیوں کا کہلاتا ہے۔ ۔یہاں میں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون  اس مہینے سے جڑے عقائد و تہوار کے بارے میں  برصغیر کے رسوم و رواج  کے آثار کا بیان ہے ،یہاں اس کی کسی شرعی حیثیت سےبحث مقصود نہیں۔

اس مہینے سے جڑی روایات میں اولین یہ ہے کہ اس کے پہلے تیرہ دن بہت بلائیں نازل ہوتی ہیں اور یہ دن بہت ہی نحس و بھاری ہوتے ہیں۔ایک روایت ہے کہ کائنات کی 90 فیصد بلائیں اس مہینے میں نازل ہوتی ہیں جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں ” دس میں سے  نو حصہ بلائیں اس مہینے میں اتر آتی ہیں”۔بڑی بوڑھیاں بچوں اور نوجوانوں کو تاکید کرتی تھیں کہ مغرب سے پہلے پہلے گھر آجائیں،درختوں کے قریب نہ جائیں وغیرہ۔(مغرب سے پہلے گھر واپسی کی روایت تو ہمارے لڑکپن تک بالعموم تھی ہی لیکن صفر میں بالخصوص قدامت پسند  حلقوں میں بعد تک روایتا نہیں بلکہ بوجہ تیرہ تیزیاں مروج رہی)۔ ڈر جانا ، جن چمٹ جانا اور ایسے دیگر واقعات میں اضافہ ہو جاتا ان دنوں میں، جو محض توہم پرستی کا نتیجہ تھا۔

teratezi
Image by Stefan Keller from Pixabay

ہمارے علاقوں میں اس مہینے کے آخری بدھ کو لوگ چُوری بنا کر نیاز کے طور پر  گاؤں، محلے میں بھیجا کرتے تھے۔ اس چُوری کے لئے ایک مخصوص آٹا ہوتا جو اب بھی کہیں کہیں دستیاب ہوتا ہے۔ آخری بدھ کو اردو میں آخری چہارشنبہ کہا جاتا ہے جو  بدھ کے دن کے لیےفارسی زبان کا لفظ ہے۔جب کہ ہماری مقامی زبان مین اسے چُوری روزہ   کہا جاتا ہے۔ یہ تہوار اس واقعے کی یاد میں منایا جاتا ہے جس کی روایت یہ ہے کہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم طویل بیماری  سے صحت یاب ہوکر غسل صحت فرما کر  شہدائے احد کہ مزارات پر تشریف لے گئے اور وہاں دعا فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدت علالت تیرہ روز بتائی جاتی ہے(تیرہ تیزی کا 13 غالبا یہیں سے لیا گیا) ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی علالت کا آغاز  ماہ صفر کے بدھ سے ہو ا مگر مدت علالت کی روایات میں اختلاف ہے۔ ایک روایت  18 صفر بروز چہار شنبہ کی ہے۔ ابن ہشام لکھتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی علالت  اس وقت شروع ہوئی جب صفر کی کچھ راتیں باقی تھیں۔

برصغیر میں شاہجہاں بادشاہ کے ہاں 12 ربیع الاول کی رات کو محفل میلاد منعقد ہوتی تھی، بعد کے مغلیہ درباروں میں 13 صفر بھی منایا جانے لگا۔ اس روز قلعہ معلی دہلی میں دربار لگتا جس میں شہزادے اور امراء شریک ہوتے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ تیرہ کا ہندسہ پورے سال کے لیے منحوس ہے شاید۔ آخری چہارشنبہ کا تہوار اس نحوست کو دور کرنے کے لیے منایا جاتا تھا۔

آخری چہارشنبہ منانے کی رسم  نے زیادہ تر مغلیہ دور میں نشوونما پائی۔ منشی فیض الدین نے "بزم آخر” میں قلعہ معلی دہلی کے آخری چہارشنبہ کا حال لکھا ہے۔ جس میں بادشاہ، شہزادے اور مکین دہلی ذوق و شوق سے حصہ لیتے اور ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کر دیتے، اس کا آغاز صفر کی تیرہ تاریخ سے ہوتا جس میں گھنگنیاں ابال کر بانٹی جاتی ۔

صفر کے آخری بدھ کو بادشاہ دربار کرتا۔داروغہ سونے چاندی کے چھلے پیش کرتا۔ چار چھلے بادشاہ پہن لیتا اور باقی شہزادوں اور امراء میں تقسیم ہوجاتے۔تیسرے پہر کوری ٹھلیا میں تھوڑا سا پانی اور اشرفی کپڑے میں لپیٹ کر ڈالی جاتی  اور بادشاہ کے آگے زمین پر پھینک دی جاتی، وہ ٹوٹ جاتی تو جمعدارنی اٹھا کر لے جاتی۔ اب تھوڑا سا پھونس جلایا جاتا اور بادشاہ اسے پھلانگتا۔ اب دوسری ٹھلیوں میں پیسے ڈالے جاتے اور جمعدارنیاں انہیں  اٹھا کر لے جاتیں۔ تیسرے پہر بادشاہ باغ میں جاتا ، شہزادوں کے استاد سنہری اور روپہلی پھولدار کاغذوں پر آخری چہارشنبے کی عیدیاں لکھ کر لاتے، انہیں عیدی کے طور پر روپے ملتے۔

یہی رسوم پاک و ہند کے مسلمانوں میں رائج ہوگئیں۔ اس روز عام تعطیل ہونے لگی۔ اسلامی مکتبوں میں میاں جی نے سرخ کاغذوں پر سنہری عیدیاں چھپی ہوئی بچوں کو تقسیم کرنی اور نذرانے وصول کرنے شروع کیے۔ زعفران، سیاہی یا گلاب سے آم کے چھلکے یا کیلے کے پتوں پر سات سلام لکھے جاتے اور لوگ مصائب سے محفوظ رہنے کے لیے انہیں دھو کر پیتے۔ آج تک یہ رسوم کم و بیش جاری ہیں۔

رفتہ رفتہ اس تہوار کی افادیت اتنی بڑھی  کہ انگریزوں کو بھی اس کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑی اور اس روز عام تعطیل ہونے لگی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ رسم قائم رہی اور چھٹی ہوتی رہی۔ اب شاید نہیں ہوتی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

طاہر اسیر کی" لاجونتی"

منگل ستمبر 28 , 2021
لاج ونتی‘‘ نہ صرف طاہر اسیر کے عشق و وجدان کا مظہر ہے بلکہ حسیں جذبات کی عکاس ہے اور ان کے فنی، تکنیکی جہتوں اور فکری نزاکتوں کی آئینہ دار بھی ہے
طاہر اسیر کی” لاجونتی”

مزید دلچسپ تحریریں