سیالکوٹ کا ادبی منظرنامہ: بزمِ علم و ادب پاکستان کی سالانہ ادبی ایوارڈز تقریب
*
رپورتاژ
*
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
[email protected]
سیالکوٹ کو شاعر مشرق علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کا شہر کہا جاتا ہے، سیالکوٹ شہر کے ادبی و ثقافتی منظرنامے میں بزمِ علم و ادب پاکستان ایک فعال اور مثالی ادبی تنظیم کے طور پر مشہور ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد ادب کے فروغ، علمی و ادبی شخصیات کے کام کو سراہنے اور نئی نسل کو ادبی تربیت و رہنمائی فراہم کرنے کے مقاصد کے تحت رکھی گئی ہے۔ یہ تنظیم وقتاً فوقتاً مشاعرے، کتابوں کی تقریبِ رونمائی، اصلاحی نشستوں اور کل پاکستان کانفرنسز کا انعقاد کرتی ہے، جن کا مقصد ادب کے نئے افق دریافت کرنا اور پاکستانی تہذیب و ثقافت کی جڑوں کو مضبوط بنانا ہے۔
بزمِ علم و ادب پاکستان کا قیام ادب پرور شخصیات کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ صدر بزم نعمت اللہ ارشد گھمن اور ان کی ٹیم نے انتھک محنت کے ذریعے اس پلیٹ فارم کو ملک بھر میں ادب کا ایک معتبر مرکز بنایا ہے۔ تنظیم نے ان شعرا اور ادیبوں کو منظرِ عام پر لانے کا بیڑا اٹھایا ہے جنہیں ان کے فن کے مطابق ابھی تک پہچان نہیں ملی۔
30 نومبر 2024ء کو سیالکوٹ بزنس اینڈ کامرس سینٹر میں منعقد ہونے والی یہ پروقار تقریب اس تنظیم کی بہترین کاوشوں میں سے ایک تھی۔ تقریب میں پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی علمی و ادبی شخصیات نے بھرپور شرکت کی۔
تقریب میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والی شخصیات کو ایوارڈز دیے گئے۔ ان ایوارڈز کے نام علامہ محمد اقبال، فیض احمد فیض، امجد اسلام امجد، پروفیسر اصغر سودائی، مولانا ظفر علی خان، اور شیو کمار بٹالوی جیسے مایہ ناز ادیبوں اور شاعروں سے منسوب کیے گئے تھے۔
تقریب میں پیش کیے گئے ایوارڈز مختلف زمروں میں دیے گئے جن میں علامہ اقبال ایوارڈ ڈاکٹر صائمہ ارم اور دیگر شخصیات کو ان کی ادبی خدمات پر دیا گیا۔
فیض احمد فیض ایوارڈ برائے کتب: مختلف مصنفین کی تصنیفات کو دیا گیا، جن میں ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم اور ڈاکٹر رحمت عزیز خان شامل تھے۔
پنجابی ادب ایوارڈ: شیو کمار بٹالوی ایوارڈ پنجابی ادب کے فروغ پر دیا گیا۔
سماجی خدمات: خواجہ محمد طفیل ایوارڈ ایسے افراد کو دیا گیا جنہوں نے اپنی کمیونٹیز میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اس پروقار تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآنِ مجید اور نعتِ رسولِ مقبول ﷺ سے ہوا، تنظیم کے صدرِ نعمت اللہ ارشد گھمن اور تنظیم کے سرپرست اعلیٰ ایوب صابر نے اپنی تقریر میں تنظیم کی کاوشوں اور مستقبل کے منصوبوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ مہمانانِ خصوصی ملک اللہ داد اور محمد حسین نے تنظیم کی علمی، سماجی اور ادبی خدمات کو بھرپور سراہا۔
یہ ایک منفرد تقریب تھی جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے ادیبوں نے شرکت کی، کھوار اور گوارباتی زبان کے ادیبوں میں رودابہ عیسیٰ خان ایڈوکیٹ، رحمت عزیز خان چترالی اور نصیر الله ناصر نے شرکت کی۔ اسی طرح بلوچستان اور سندھ جیسے دور دراز علاقوں سے بھی ادیبوں نے شرکت کرکے اس پروگرام کو کامیاب بنائے۔ مستقبل کے ایوارڈز پروگرام کے لیے چند تجاویز پر عمل کیا جائے تو اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا:
ادبی تقریبات کا دائرہ کار سیالکوٹ سے بڑھاکر اسلام آباد، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا تک وسیع کیا جائے، تنظیم کو دیگر چھوٹے شہروں اور دیہات میں بھی ادبی نشستوں اور ایوارڈز کی تقریب کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ دوردراز سے آنے والے ایوارڈز یافتگان کے لیے آسانی ہو۔
بزم علم و ادب کی خدمات کے فروع کے لیے آن لائن پلیٹ فارم کا قیام بھی ضروری ہے۔ بزم کو ڈیجیٹل دور کے تقاضوں کے مطابق آن لائن کانفرنسز اور مشاعروں کا بھی انعقاد کرنا چاہیے۔
نوجوان ادیبوں کے لیے ورکشاپس بھی وقت کی اشد ضرورت ہے نئے لکھنے والوں کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد ضروری ہے تاکہ ان کے فن کو نکھارا جا سکے۔
تنظیم کو عالمی سطح پر اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں ادب کے فروغ کے لیے ادبی تنظیموں سے روابط قائم کرنے چاہئیں۔
ہم نعمت اللہ ارشد گھمن صاحب صدر علم و ادب سیالکوٹ اور ان کی ٹیم کے تمام اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے ادب کی خدمت کو اپنا مقصد بنایا۔ ان کی کاوشیں اردو ادب کو نئی بلندیوں تک پہنچا رہی ہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ یہ تنظیم مستقبل میں بھی اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے گی۔
سال 2024 میں جن مختلف کیٹیگریز میں ایوارڈ ز دیے گئے ان میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ برائے علمی و ادبی خدمات، علامہ اقبال ایوارڈ برائے علمی وادبی خدمات، فیض احمد فیض ایوارڈ برائے علمی وادبی خدمات، فیض احمد فیض ایوارڈ برائے کتب،پروفیسر اصغر سودائی ایوارڈ برائے تعلیمی خدمات، امجد اسلام امجد ایوارڈ برائے علمی وادبی خدمات، شِو کمار بٹالوی ایوارڈ برائے پنجابی ادب، مولانا ظفر علی خان ایوارڈ برائے صحافتی خدمات اور خواجہ محمد طفیل ایوارڈ برائے سماجی خدمات شامل ہیں۔
لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ برائے علمی و ادبی خدمات پروفیسر ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری(ڈین فیکلٹی آف لینگویجز منہاج یونیورسٹی لاہور)، پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال شاہد(پروفیسر ایمرطس گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور) اور پروفیسر سید عدید (ممتاز شاعر،دانشور، ماہر تعلیم ) کو پیش کیا گیا۔
علامہ اقبال ایوارڈ برائے ادبی و علمی خدمات جن شخصیات کو پیش کیا گیا ان میں ڈاکٹر صائمہ ارم(صدر شعبہ اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور)، ڈاکٹر سبینہ اویس (ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اردو و چیئرپرسن اقبال چیئر گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ) اورڈاکٹر سمیرا اکبر(اسسٹنٹ پروفیسرشعبہ اردوگورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد) شامل تھیں۔
فیض احمد فیض برائے علمی و ادبی خدمات ڈاکٹر سید سفیر حیدر(ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور)، ڈاکٹر بابر نسیم آسی(چیئرپرسن شعبہ فارسی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور)،چوہدری فہیم ارشد(اقبال اکادمی پاکستان لاہور)، ڈاکٹر نور البصر امن (مالاکنڈ)، پروفیسر نسیم سلیمان (راولاکوٹ آزاد کشمیر)، ڈاکٹر محمد رفیق(پشاور)، ڈاکٹر محمد طاہر بوستان خان (سوات) شامل ہیں۔
فیض احمد فیض ایوارڈ برائے کتب وصول کرنے والی شخصیات میں ڈاکٹر ہارون الرشید رشید تبسم(سرگودھا)، پروفیسر ڈاکٹر مشتاق عادل(ساہیوال)، ڈاکٹر عامر اقبال(جھنگ)، طالب حسین کوثری( فیصل آباد) ،ڈاکٹر عارف حسین عارف( فیصل آباد )،ڈاکٹرمشرف حسین انجم (سرگودھا )،ڈاکٹر رحمت عزیز خان( چترال)، ڈاکٹر نوید عاجز (پاکپتن)، ڈاکٹر محمد انصر جاوید گھمن (سیالکوٹ)، ڈاکٹر روبینہ پروین (اسلام آباد)، ڈاکٹر غزل یعقوب (اسلام آباد) ،پروفیسر فوزیہ سلطانہ (بھمبھر آزاد کشمیر)،پروفیسر محمد ارشد راہی، محمد جمیل کاچوخیل(مالاکنڈ)، عبدالرحیم بھٹی( ہزارہ)، اخوانزدہ شاہ سعوددیشانوی(چار سدہ)، فرحانہ عنبر( گوجرانوالہ)،منان لطیف(فیصل آباد)، محمد سجاد صفدر(فیصل آباد)،حمزہ محبوب(فیصل آباد)،ارشد ابرار ارشد(تونسہ شریف) ، مہ جبین (لاہور)، ارحم روحان( اسلام آباد)، عینی عرفان(کراچی) اور فاکہہ قمر(سیالکوٹ)شامل تھیں۔
پروفیسر اصغر سودائی ایوارڈ برائے تعلیمی خدمات ڈاکٹر فضیلت بانو(لاہور)، ملک عظمان احمد (سیالکوٹ)، ڈاکٹر عبدالرحمن (سیالکوٹ)، عاشق حسین صدیقی(سیالکوٹ)، ضیاء الحق (سیالکوٹ)، ڈاکٹر تنویر ہما انصاری(جام شورو سندھ)،مصباح شاہین (سیالکوٹ)، شبیر رضا( پسرور)، سید ندیم الحسن گیلانی( سیالکوٹ)، عدنان احمد راؤ(سیالکوٹ)، تنویر احمد(سمبڑیال)، سلبسیل افتخار چیمہ(سیالکوٹ)،عرفہ مزمل سرور(سیالکوٹ)،محمد حنیف طیب( سیالکوٹ)، رابیل بٹ(سیالکوٹ)،حفصہ خالد (لاہور)،حافظ ملک جمشید (ایبٹ آباد )،سدرہ منور(سیالکوٹ) اور ثمرینہ عبدالمجید(سیالکوٹ)کو پیش کیا گیا ۔
شو کمار بٹالوی ایوارڈز برائے پنجابی حاصل کرنے والی شخصیات میں ڈاکٹر محمد ایوب (فیصل آباد) ، آصف علی علوی (سیالکوٹ)،مقصود یاور(گوجرانوالہ)،ارشد اعوان (سپین) اورعلی احمد گجراتی( گجرات) شامل تھے۔امجد اسلام امجد ایوارڈ برائے علمی وادبی خدمات وصول کرنے والی شخصیات میں شفقت حیات شفیق (ٹیکسلا)، تسنیم کوثر (لاہور)، عروج دورانی (لاہور)، نصیر اللہ ناصر (لوئر چترال)، رباب ملک (چکوال)، رودابہ عیسی خان (اپرچترال)، سیدہ سعدیہ ظفر جیلانی( فیصل آباد) اورشمیمہ عندلیب(ملتان) شامل تھیں۔ مولانا ظفر علی خان ایوارڈ برائے صحافت طلال فرحت(کراچی)،جنید آفتاب (سیالکوٹ)،خالد لطیف(سیالکوٹ)، شہباز باجوہ(سیالکوٹ)، حسنین پاشا (سیالکوٹ) اور خضر شیخ (سیالکوٹ)نے وصول کیا۔
مولوی میر حسن ایوارڈ برائے دینی خدمات قاری لیاقت علی باجوہ (سیالکوٹ)، علامہ نصیر القادری(سیالکوٹ)، زبیر احمد صدیقی(چونڈہ )شامل تھے۔خواجہ محمدطفیل ایوارڈ رائے سماجی خدمات محمداعجازغوری(سیالکوٹ)،انجینئر فیضان الحق مرزا (سیالکوٹ)،ڈاکٹر چوہدری تنویرسرور (لاہور)،حفصہ خان (رحیم یار خان )شامل ہیں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔